فزوں تر ہوگیا ہے اب مرا سودائے غم ساقی
نہیں اب ضبط کی بندش میں میرا رنج و غم ساقی
چھلکتا جائے ہے پیمانہٴ صبر و وفا اپنا
برس پڑتی ہیں آنکھوں کی گھٹائیں دم بہ دم ساقی
مرا دل سوزشِ پیہم سے ہے ناسور کی صورت
بنا ہوں مدتوں سے تختہٴ مشقِ ستم ساقی
جراحت کے چمن اندر چمن ہیں میرے پہلو میں
مرا دل بن گیا زخموں کا گل زارِ ارم ساقی
جنازہ میرا جب کندھوں پہ اٹھے ان سے کہہ دینا
مرے ہم راہ چل دیں اب تو وہ دو اک قدم ساقی
نہیں مجھ کو ضرورت کچھ بھی عود و عطر و عنبر کی
مری تربت میں رکھ دینا ذرا عرقِ صنم ساقی
خلیلی# ہے جنوں کے شہر میں تیرے لیے رسوا
نہ ٹوٹے دیکھنا تیرے تعلق کا بھرم ساقی