مبتلا گیا ہوں میں کب سے عذاب میں
میری گزر یہ زیست رہی ہے عتاب میں
بھولا نہیں سکا میں زیبا چہرہ اس لیے
آتا نظر ہے چہرہ تو اس کا کتاب میں
رب نے حسین خوب بنایا ہے دوستو
لگتا بہت حسین ہے ساجن حجاب میں
کوئی لگا نہ جانے اسے روگ ہجر کا
ہر وقت محو رہتا ہے سجنا شراب میں
جب بھی ملا ہے دیکھی رعونت ہی ہے مگر
دیکھا پے پہلی بار اسے تو عتاب میں
ملتے نہیں ہیں ذہن ہمارے تو دوستو
کوئی ہوئی ہے بھول ہمیں انتخاب میں
کیسے جواب دینا کروفر سے پوچھا تھا
پوچھا سوال ایسا نہیں تھا نصاب میں
یارانے بھول وہ گیا شہزاد برسوں کے
مشکل میں تھا نظر مجھے آیا ہے خواب میں