مجھ پہ گزری یہ ابتلا برسوں
میں رہا تجھ میں مبتلا برسوں
تیری ہی ذات کے بیاباں میں
میں تجھے ڈھونڈتا پھرا برسوں
ایک خوشبو نے فاش کر ڈالا
راز پہلے نہیں کھلا برسوں
اب کی بار اک نیا تماشہ ہے
وہ جو پہلے ہوا، ہوا برسوں
اس کی آنکھوں میں ایسی وحشت تھی
اب نہ شاید ہو سامنا برسوں
وہ جو کہتا تھا زندگی مجھ کو
وہ مرے بعد بھی جیا برسوں..
تیرا آسیب بس گیا ایسے
دل میں کوئ نہ رہ سکا برسوں
اس کو مدّت ہوئ نہیں دیکھا
وہ جو میرا کبھی رہا برسوں
کاش ذوقِ سخن اسے ہوتا
شعرجس کے لیے کہا برسوں