مجھی سے پوچھ رہا تھا سنا گیا کوئی
بتوں کے شہر میں وہ ہی ہنسا گیا کوئی
خموشیوں کی چٹانوں کو توڑنے کے لیے
کسی کے پاس نہیں تھی جگا گیا کوئی
سمجھ سکی نہ مگر کوئی پتھروں کی زباں
ہر ایک لمحہ لگا وہ دکھا گیا کوئی
یہ بند لب ہیں کہ کوئی کھلی ہوئی سی کتاب
مرے سوال پہ وہ بولتا گیا کوئی
ورق پہ رات کے لکھی ہے صبح کی تحریر
یہ ایک وقت ہے بے رنگ آ گیا کوئی
نہ حرف حرف ہوا عکس گفتگو میرا
سمجھنا چاہو تو وہ ہی رلا گیا کوئی
اک آنسوؤں کا سمندر تھا جل پری کا لباس
ملا تو ایسےکہ غم کو سلا گیا کوئی
ہر ایک ذہن میں اپنے ہی بند ہے وشمہ
فضا کے خول سے باہر ہی پا گیا کوئی