وقت ُرکتا نہیں کیسی کے لیے
مجھے اس کا احساس بڑی دیر سے ہوا
الوداع وہ کہنے تو آیا تھا لیکن
میرے روح با روح وہ آخری سلام بڑی دیر سے ہوا
وہ جا چکا تھا میری سرحد سے پار
مجھے ُاس سے پیار بڑی دیر سے ہوا
اک پھول وہ جنگل میں چھوڑ گیا تھا میرے لیے
ُاس گلاب کا انکشاف بڑی دیر سے ہوا
پہلی برسات میں پہلا خط آیا تھا ُاس کا
وہ خط میرے لیے تھا وہ راز فاش بڑی دیر سے ہوا
بھری محفل میں اک گیت ہیگایا تھا
وہ گاتے مجھے کیوں دیکھ رہا تھا وہ سوال بڑی دیر سے ہوا