محبتوں پر دل حزیں کو نثار کرنا
ہے یوں کہ جیسے جنوں میں خود ہی پہ وار کرنا
عجب نہیں وہ بھی میرے رستے پہ خود کو ڈالے
وہ جس نے سیکھا ہے قافلوں کو غبار کرنا
وہ ایک بارش کی منتظر بے شمار آنکھیں
وہ ایک طوفاں کا بستیوں کو شمار کرنا
مجھے تو اس نے تمام لمحے وہی دئے ہیں
وہی جو اہل جنوں کو ہوں اختیار کرنا
شفق اتر کر تمہارے پلو سے بندھ گئی ہے
جو ہو سکے تو سحر تلک یہ حصار کرنا
اذیتوں کا خمیر زخم نہاں سے اٹھا
کبھی جو چاہا ہے دل کا صحرا بہار کرنا