گھٹن ملال الم شوق مئسکرانے کا
مری غزل میں ہے سب کچھ مرے زمانے کا
کس اہتمام سے اڑتے ہیں مل کے لاکھوں طیور
سلیقہ چاہئے اپنی ڈگر بنانے کا
سگار پیتے ہیں ہم نے کبھی شراب نہ پی
دھویں سے کام لیا بزمِ غم سجانےکا
ہوس سے پاک ہے شہرِ گراں میں عشقِ غریب
کہ اچھا خاصہ کرایہ ہے وصل خانے کا
حصولِ یافت کو معشوق کر لیا ہم نے
عجیب لطف ہے اس یار کو منانے کا
ہیں اقتدار کے خواہاں یہ ماہرینِ فساد
بہانہ ڈھونڈ تے رہتے ہیں ورغلانے کا
وہی ہے خصلتِ انساں وہی وتیرئہِ شر
جدید عہد نیا عکس ہے پرانے کا
دکانِ تذکئہِ قلب قفل خواہ ہوئ
سبب ہے مال نہ بکنا دکاں بڑھانے کا
وہ ساری خوبیاں منان ترک کر دی ہیں
گمان جن پہ تھا انسانیت گنوانے کا