مرے ہاتھ میں ہے کہ مغرور کر دوں
میں چاہوں تو دل تجھ کو رنجور کر دوں
میں بن کر ہوا پھر سے خوشبو کی مانند
دلوں کے شجر کو تو مسرور کر دوں
ابھی مت سناؤ یہ جنت کے قصے
میں جیون میں خود کو تری حور کر دوں
نگاہوں میں بس جائے جلوہ تمہارا
سیاہی شبِ ہجر کی نور کر دوں
مری کج کلاہی سے نا آشنا ہے
اسے خود سے کیسے ابھی دور کر دوں
مرا ساتھ دے تو میں دنیا میں ہر سو
یہ رائج وفاؤں کا دستور کر دوں
ترے ذہن میں ہے تکدر تو وشمہ
زمانے کو خوشیوں سے کافور کر دوں؟