سخن میں بھی تو ،استعاروں میں تو ہے
مرے علم کے کچھ اشاروں میں تو ہے
مسلسل مری آنکھ سے بہہ رہا ہے
سمندر کے دلکش کناروں میں تو ہے
مجھے عشق نے تو نکما کیا ہے
میں پہلے تھی اب تو خساروں میں تو ہے
محبت کی مجھ سے نہ رکھنا امیدیں
جفاؤں کی جب رہگزاروں میں تو ہے
چمکتے ، دمکتے جو رہتے ہیں ہر دم
مری آنکھ کے ان ستاروں میں تو ہے