مجھے دیارء وفا کا نہ بھٹکا سمجھو
مجھے شعور کی باتیں نہ سکھاؤ دلبر
دل کھول کے میں
روح میں بسا کر خوشیاں
سماعتوں کو سونپ کر جھوٹےسب دلخراش ساز و سخن
حیاتء نور کو بے نور گردان کر ھمدم
بصارتوں کو بصیرت سے کر کے بے بہرہ
چھو کے سب مصنوعی لمس
انگلیوں کی پوروں سے
فقط اک بھر کے آہ سرد
دھر کے کاندھے پہ تیرے
اپنا دکھوں کے طوق سے مزین سر
پل دو پل کو ھی سہی مگر................... ھمدم
جی بھر کرایک پل میں
صدیوں پہ محیط لمحے جینا چاھتی ھوں