"دھوم اتنی ترے دیوانے مچا سکتے ہیں"
مل کے دیوارِ حقارت کو گرا سکتے ہیں
میں نے حق بات نہ چھوڑی تو زمانے والے
میرے الفاظ بھی سولی پہ چڑھا سکتے ہیں
آپ اس شہر سے اک بار نکالیں مجھ کو
آپ کے پیار کی دنیا سے بھی جا سکتے ہیں
آپ کی آنکھ سے پینا ہے مجھے جامِ حیات
آپ چاہیں تو کوئی زہر ملا سکتے ہیں
آپ سے اور تمنا بھی نہیں ہے لیکن
آپ سینے سے تو اک بار لگا سکتے ہیں
.دل میں غم اور سسکتے ہوئے جذبات رہے
میرے اس بخت کو خوشیوں سے ملا سکتے ہیں
چھوڑو نفرت کی سبھی باتوں کو اے انسانوں
شعلے نفرت کے محبت سے بجھا سکتے ہیں
ایک مہتاب کو ماتھے پہ سجا کر وشمہ
ایک سورج تو محبت کا چڑھا سکتے ہیں