مَیں ہر نظر کے اشاروں سے دور رہتا ہوں
قدم نہ روکیں مہاروں سے دور رہتا ہوں
مَیں خوش ہوں دیکھ کے ساحل کا دور سے منظر
بھنور کا ڈر ہے کناروں سے دور رہتا ہوں
حسیں جوان شراروں سے خوف آتا ہے
کہ جل نہ جاؤں شراروں سے دور رہتا ہوں
آواز دل کی شہر بھر میں عام ہو نہ کہیں
اسی لئے مَیں دیواروں سے دور رہتا ہوں
کہ احترامِ ولی میں نہ کوئی غلطی ہو
تو پیرِ عصر مزاروں سے دور رہتا ہوں
مَیں شہسوارِ غزل کی طرح نہ رُل جاوں
سررود و کیف کے دھاروں سے دور رہتا ہوں
مرا وہ ذوقِ محبت نہ پھر سے جاگ اٹھے
مَیں عشق و پیار کے ماروں سے دور رہتا ہوں
کہ ان کی یادیں خزاں میں نہ تنگ کرنےلگیں
چمن سے، گُل سے، بہاروں سے دور رہتا ہوں