میری داستاں ہے جو بےنشاں
نہیں عشق کی ہے یہ انتہا
کہ میں زندہ ہوں اک آس پر
نہیں یہ جفاؤں کی انتہا
میرے دل میں رہ اک کمی گئی
کہ وہ پوریی ہو ہے یہ اانتہا
لب یار میں رہی نہ سکت
طوفان شور کی ہے یہ انتہا
سبب اس کے قریب اجل میں ہوں
بے وفائی کی ہے یہ انتہا
نظر آدم نے کیا ہے یہ اخذ
میرے عزر کی ہے یہ انتہا
ہوا آشنا ہوں ابھی دور سے
ہے یہ نا آشنائ کی انتہا
کہ بہانے اس کہ ہزار ہیں
میرے مرنے کی ہے یہ انتہا
شوق دیدار جو سبب معراج بنا
محبتوں کی ہوئ ہے یہ انتہا
جو تھے فاصلے سب ہی سمٹ گۓ
رکے جبرائل ہے یہ انتہا
دیا تحفہ کتنا وہ دل نشیں
نہ سمٹ سکا ہے یہ انتہا
کہ مثال زمانہ وہ بن گئی
وفاوں کی ہوئ ہے یہ انتہا
حبیب تو بھی پیدا مثال کر
جو محبت ہے کی انتہا کی کر
کہ زمانہ کرتا رہے یہ ورد
ہے یہ انتہا،ہے یہ انتہا