تمہارے پیار کی گہرائی میں غرقاب رہتی ہوں
گزرتے وقت کی آنکھوں میں بن کر خواب رہتی ہوں
تمہارے دل میں آنے کے لئے اک روح کی مانند
میں جسم و جاں کی دیوار میں بے تاب رہتی ہوں
ترے دل کے نہاں خانوں سے نکلوں تو کہیں جاؤں
زمانے کے لئے آخر میں کیوں نایاب رہتی ہوں
بھلا اٹھلا کے ساحل پہ کیوں رقصِ موج کہلاؤں
چھپائے ولولوں کو دل میں زیرِ آب رہتی ہوں
تیری یادوں کے پیکر سے لپٹ کر سو گیا یہ دل
مگر میں تو تصور میں ہی محوِ خواب رہتی ہوں