ترا یقین ہوں کب سے جہاں بناتے ہیں
میں زندگی کے بڑے امتحاں بناتے ہیں
شجر شجر مری آمد کا منتظر موسم
میں برگ ہواؤں میں اڑاں بناتے ہیں
یہ دور علم و ہنر اس کو پڑھ نہیں پایا
صحیفہ دل کس کی یہ زباں بناتے ہیں
عجیب لطف ہے اس ٹوٹنے بکھرنے میں
ہم ایک مشت غبار اب کہاں بناتے ہیں
جو خاک ہو گئے تیرے فراق میں ان کا
خیال بھی کبھی اے جان جاں بناتے ہیں
جو مصلحت کے تقاضے کے تحت لکھے گئے
سو مستقل یہ فسانے نشاں بناتے ہیں
رہے قریب ، مرے رازداں نہ بن وشمہ
تھی دوستی تو بہت مہرباں بناتے ہیں