میں چاہتا ہوں منظر بدل جائے کہیں
اپنی آنکھ سے کنکر نکل جائے کہیں
یوں نگاہوں میں خمار نہ لایا کرو
ورنہ یہ بھید نہ کھل جائے کہیں
میں تحلیل وسعت کے درمیاں رہ گیا
دماغ سوچے کچھ اور دل جائے کہیں
زمانے کے تسلسل کو پھر سوچیں گے
پہلے اپنا رنج تو سنبھل جائے کہیں
اِس تفکر میں دھڑکن چھپائے رکھتا ہوں
کہ تجھ سے رسوائی ٹل جائے کہیں
سارے جہاں کی ہر مسرفی میں سنتوشؔ
ڈھونڈ بھی لو کہ وفا مل جائے کہیں