نورِ نظر جب سے تو رہا نہیں
کیوں رات میں وہ عطا نہیں
ہر طرف بہارِ عشرت ہے
کیوں من میں گُل کھلا نہیں
ہر طرف آزادی کے نغمے ہیں
مگر ہم آزاد ہو کر رہا نہیں
لوگ ہمددر نہیں سب فریب ہیں
شجروہجر کیا اس کے گواہ نہیں
یوں ہی پانے کی کوشش کی
اس میں تو خدا کی رضا نہیں
وہ نہ آۓ گا ترِی نگاہ میں اَمیر
کیوں مر کے اب تُو تڑپا نہیں