نہ مے کدے میں کہیں ، نہ کسی شراب میں ہے
نشہ تو اس کے مچلتے ہوئے شباب میں ہے
کیوں ماند پڑنے لگی روشنی ستاروں کی
ابھی تو ہوشربا حسن وہ نقاب میں ہے
وہ چاند سے بھی زیادہ حسین مجھ کو لگا
میں مانتا ہوں بہت حسن ماہتاب میں ہے
کوئی مثال نہیں اور اس کے عارض کی
کہ ایسا روپ تو ہوتا فقط گلاب میں ہے
عیاں نہ کرنے لگے اس کو میرا حال کہیں
جو چھپ کے رہتا کہیں میرے اضطراب میں ہے