وصل کا گیت سناتے کیوں ہو
ہجر کا درد چھپاتے کیوں ہو
بعد میں نیند جو وتل کرو گے
پہلے خواب جگاتے کیوں ہو
کرتا ہو جو شور آنکھوں میں
نام وہ لب پر لاتے کیوں ہو
پہلے خود ہی دل دے بیھٹے
اب احسان جتاتے کیوں ہو
کہہ دو مجھ کو بھول گئے تم
کہنے سے گھبراتے کیوں ہو
دیس کو خود پردیس بنایا
بولو اب پچھتاتے کیوں ہو
پلٹ کے جو گھائل کر ڈالے
ایسا تیر چلاتے کیوں ہو
سپنا تو سپنا ہوتا ہے
آگ کو برف بتاتے کیوں ہو