میں آگ میں بھیگ جاتا ہوں، جلتا ہوں سمندر میں
میرا احساس مجھ کو مار جاتا ہے میرے گھر میں
میں منصف تھا تو دوستی کو خاطر میں نہیں لایا
اب تعلق رسوائی ٹھہرا ہے دوستوں کی نظر میں
میں ہنگاموں سے گھبرا کر چلا آیا جو جنگل میں
یہاں بھی خوف وہی ہے جو چھوڑ آیا ہوں شہر میں
میری امارت مجھے اغیار میں بھی عزیز رکھتی ہے
تہیِ داماں میں جب تھا تو اکیلا تھا جہاں بھر میں
وہ آئینہِ زیست سے اپنا پیکر کبھی واپس نہیں لیتا
جو جاتا ہے وہ خوابوں سے تو آ جاتا ہے تصور میں
میں منزل چھوڑ آیا ہوں کہیں رستے میں پیچھے ہی
مظہر یہ عمر گزرے گی اب کسی انجان سفر میں