وہ ریت کے نام اب تو مٹنے کو ہیں
کچھ لوگ اس جہاں سے کٹنے کو ہیں
ہم نے تو ایک شوق کی دنیا بسا رکھی ہے
وہاں دیکھو فرقوں میں آدمی بٹنے کو ہیں
اب تک تو رخ سے پردہ ہی نہیں ہٹا
مگر امکاں ہے کہ طوفان اُٹھنے کو ہیں
دنیا کی خارج رسمیں بھی اپناکر دیکھیں
کہ اب تو اور بھی مذھب نکلنے کو ہیں
کہیں دوستی سے منسوخ یہ عالم بستے رہے
کہیں خون کے رشتے تو سمجھنے کو ہیں
ہم نے اپنے فرقت کہاں کی ہے
لیکن یہ دکھ سکھ کے لمحے گننے تو ہیں