وہ مجھ سے دور ہوتے جا رہے ہیں
ستم ناسُور ہوتے جا رہے ہیں
سبھی ہم پر ستم کرنے لگے ہیں
تمہیں منظور ہوتے جا رہے ہیں
نبھاتے ہی نہیں رسم ِوفا وہ
بہت مجبور ہوتے جا رہے ہیں
کرے گا کون قابو میرے جذبے
یہ مثل ِطُور ہوتے جا رہے ہیں
ہمارے حال پر رحمت خدایا
غموں سے چُور ہوتے جا رہے ہیں
گلی میں پھر تمہاری آ گئے ہم
قدم مجبور ہوتے جا رہے ہیں
جو کُرسی کا بھرم رکھنا نہ چاہیں
وہی مامور ہوتے جا رہے ہیں
بلال آخر تمہارے شعر بھی اب
بہت مشہور ہوتے جا رہے ہیں