فلک کا منظر بھی کتنا اداس ہے
میرا جسم بخار سے نڈھال ہے
یوں تو میں روک لیتی ُاسے مگر
ُاس شخص کے ہاتھ میں مجبوریوں کا جال ہے
گلدستا وہ لایا میرے لیے جس میں
کاڈ پر لکھا اک مشکل سوال ہے
میرے آںسوؤں نے جواب دے دیا ُاسے
کہ اب تیرے بناء میرا جینا محال ہے
وقت رخصت ہاتھ پکڑ کر چوم لیا ُاس نے
وہ ہجر کا آغار یا پھر کوئی وصال ہے
بڑی حسرت سے آج مجھے وہ دیکھ رہا تھا
چھوڑ گیا میرے پاس اپنے آنسوؤں بھرا جو رومال ہے
خشک ہو گئے ُاس کے آنسو لیکن دبہے قایم رہے
اک پل میں جیسے دھو دیا یہ میرے آںسوؤں کا کمال ہے