پاس آتا نہیں تنہائ میں شب کرتا ہے
اس طرح دل پہ مرے روز غضب کرتا ہے
روٹھ جانے کا تو حق ہے اسے لیکن کیونکر
دشمنی مجھ سے وہ غیروں کے سبب کرتا ہے
زخم دینے کے سوا اس کا کوئ کام نہیں
پھر بھی دل ہے کہ وہی شخص طلب کرتا ہے
وہ ستمگر تو ستم کر کے چلا جاتا ہے
دل عطا جان کے پھر جشن طرب کرتا ہے
کیسے مانوں کہ مرا کوئی گلہ اس نے کیا
اس کو فرصت ہی کہاں یاد بھی کب کرتا ہے
ایسے تو پیار کسی سے نہیں کرتا کوئ
دل میں جب کوئ اتر جاۓ تو تب کرتا ہے
میں ستم سہہ کے تو اف تک نہیں کرتا بالکل
روٹھ جانے بہانے وہ عجب کرتا ہے
وہ ستم کرتا رہے مجھ کو ہے منظور مگر
کیوں مرے سامنے خاموش وہ لب کرتا ہے
بس مجھے پیار وہ کرنے نہیں دیتا باقرؔ
ویسے تو جو بھی کہوں کام تو سب کرتا ہے