پہلے تو ہم سے صنم عہدِ وفا لیتے ہو
پھر محبت کو کہیں اور بسا لیتے ہو
میں مسیحا بھی نہیں اور نہ ہی ناصح ہوں
کیوں رفاقت میں مرِی آکے پناہ لیتے ہو
دے کر جاتے ہو دلاسہ مری جاں ،شکر ترا
یوں مرے دل سے ہر اک لمحہ دعا لیتے ہو
آگ خود دامن دل میں ہو لگاتے اور پھر
جھوٹے اشکوں سے اسے آکے بجھا لیتے ہو
جب ستاتی ہے تمہیں یاد وفا تو مری جاں
دشت مجنوں سے کہیں اس کا پتہ لیتے ہو
کون آتا ہے تجھے ملنے حویلی میں تری
پچھلی شب کس لئے تم دیپ جلا دیتے ہو؟
تم سے پروہز کس طرح بار غم عشق اٹھا لیتے ہو