پہلے پہل تو مجھ کو ہچکی آتی تھی
بعد میں تیرے نام کی چٹی آتی تھی
بانٹ لیا کرتے تھے دونوں گھر کا دکھ
وہ بھی دفتر تھوڑا جلدی آتی تھی
کب ملنا ہے اور کہاں پر ملنا ہے
کاپی میں رکھ کر یہ پرچی آتی تھی
ہم ملتے تھے اس سے ایسے موسم میں
جب سرسوں کے پھول پہ تتلی آتی تھی
باغوں کی جانب ہم دوڑ لگاتے تھے
آم کے موسم میں جب آندھی آتی تھی
ہم بچے بھی کتنا شور مچاتے تھے
شام کو جب بھی گاؤں میں بجلی آتی تھی