تیرے میرے درمیان ساقی یہ چار دن کا جو سلسلہ تھا
نہیں خبر وہ غبار راہ تھا فریب منزل یا مرحلہ تھا
کسے خبر تھی کہ تیری محفل سے ہم کو جانا پڑے گا اک دن
ابھی جو سوچوں تو ایسے لگتا ہے سارا قصہ ہی خواب سا تھا
نا بازیابی فریب بن کر حسین خوابوں میں ڈھل رہی تھی
پلٹ کے دیکھا تو درمیاں میں ہزار صدیوں کا فاصلہ تھا
یہ تپتے صحرا میں چار سو جو ہیں پھول پھیلے تو کیسی حیرت
کبھی فروغ شب ہجر میں میرا اک آنسو یہاں گرا تھا