آپ کی روشنی کو دیکھتا ہے
چاند کب چاندنی کو دیکھتا ہے
کچھ تو ہے آپ میں کشش ایسی
ہر کوئی آپ ہی کو دیکھتا ہے
جس نے دیکھا ہے ایک بار اُسے
پھر وہ کیوں کر کسی کو دیکھتا ہے
سبھی کرتے ہیں دل لگی مجھ سے
کون دل کی لگی کو دیکھتا ہے
میرے چہرے کو کیوں نہیں پڑھتا
جو مری خامشی کو دیکھتاہے
تم سے اُمید تھی مگر تُو بھی
اپنی ہی زندگی کو دیکھتا ہے
ہے کسی کا تو انتظار اُسے
ہر گھڑی جو گھڑی کو دیکھتا ہے
ظرف کی کون پوچھتا ہے میاں
کون اب تشنگی کو دیکھتا ہے
ساقیا تیرے میکدے کی خیر
تُو بھی اب مال ہی کو دیکھتا ہے
جو بھی مل جائے اُس پہ شکر کرو
کب کوئی ہر خوشی کو دیکھتا ہے
ہے وہ ہی شخص رحم کے قابل
جو فقط بندگی کو دیکھتا ہے
تیری دنیا میں اے مرے آقا
کب کوئی اب ہنسی کو دیکھتا ہے
تیری دنیا میں ہر کوئی یارب
اپنی آسودگی کو دیکھتا ہے
لوگ یہ مان کر نہیں دیتے
میرا مولا سبھی کو دیکھتا ہے
شخص وہ خوف ہی سے مرتا ہے
وہ جو بس زندگی کو دیکھتا ہے
خوبیاں تو نظر نہیں آتیں
ہر کوئی عیب ہی کو دیکھتا ہے
ہم بھی چمگادڑوں کے جیسے ہیں
ہر کوئی تیرگی کو دیکھتا ہے
جس کے ہاتھوں میں ہے چراغ وسیم
وہ مری مفلسی کو دیکھتا ہے