چشمِ شوق سے اشکِ خون بہنے لگے
وہ جب سے مری نظروں سے دور رہنے لگے
ہم ہے پیکرِ حقیر یہ مانتے ہیں
اب زمانے کے ساتھ ساتھ وہ بھی کہنے لگے
جتن کرتے تو ہیں ہجراں غم بُھلانے کی
عشق کی طرح اس میں بھی ناکامیاں سہنے لگے
گھنگو ہیں ابرِ الم مرے قلب پے دوست
موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے راہ نزع کی تکنے لگے
دل ِ آویز تھا اُس کی ہر ادا کا جلوہ
دل کے خلاوں کو خیالوں سے اس کے بھرنے لگے
جوبن کا قصور تھا یا نادانی کا نہال
اس کو سنوارتے سنوارتے خود بکھڑنے لگے