چپکے سے میرے دل میں اتر آ کہ رات ہے
کہہ دوں گی آج تم سے جو دل میں بات ہے
پہروں تمہارے ساتھ رہے کچھ نہیں کہا
میرے لبوں پہ آج میرے دل کی بات ہے
میرا وجود پھولوں سا مہکنے لگے گا
ہاتھوں میں اگر آج میرے تیرا ہاتھ ہے
میری ادھوری زندگی تکمیل پائے گی
تیرا وجود آج اگر میرے ساتھ ہے
میرا سایہ چھوڑ کے تجھ میں سما گیا
میرا وجود کھو گیا بس تیری ذات ہے
تنہائی میں شہنائیوں کے ساز چھیڑ دے
کوئی جلترنگ سنا دے پرسکون رات ہے
اے ماہ تاب نور کی برسات لے کے آجا
چاندی بکھیر دے بڑی تاریک رات ہے
عظمٰی وہ چاند میرے آنگن میں اتر آیا
جس کے جلو میں چاندنی کا التفات ہے