چھوڑ جانے کے بہانے بھی عجب کرتے ہو
اور پھر مجھ سے محبت بھی طلب کرتے ہو
غیر کی بزم جو دن رات سجاتے ہو صنم
اس طرح دل پہ مرے روز غضب کرتے ہو
ایک میں ہوں کہ تری یاد میں گم ہوں دن رات
ایک تم ہو کہ جلانے کا سبب کرتے ہو
خوب ٹھانی ہے نیا پھر سے ستم کرنے کی
اب کے ملتے ہو تو خاموش جو لب کرتے ہو
دل مرے تم بھی عجب چیز ہو پاگل ہو کوئی
وہ ستم کرتا ہے تم اس کا ادب کرتے ہو
اے مرے یار یہ بتلاؤ میں جب روتا ہوں
تم مجھے دیکھ کے کیوں جشنِ طرب کرتے ہو
کیسے میں مان لوں اب تک ہی مجھے چاہتے ہو
تم کو فرصت ہی کہاں یاد بھی کب کرتے ہو
میں نہ سو پاؤں تو پھر مجھسے گلہ مت کرنا
تم مرے نام جو تنہائی کی شب کرتے ہو
چھوڑ جاتے ہو مری آنکھ میں پانی باقرؔ
تم بچھڑنے کا اشارہ مجھے جب کرتے ہو