ڈر کے مارے صبح کو کھولتے نہیں آنکھیں
ملا ہے جو خواب میں کھو نہ جائے کہیں
تیرے پردے کی خاطر ملتا نہیں کسی سے
حُسن دنیا میں تیرا رسوا ھو نہ جائے کہیں
شبِ ہجر میں تیرے ملنے کے ہر وعدہ کا
دلاتےہیں یقین دل کو، سونہ جائے کہیں
ہم شبِ وصل میں اُنکی باںہوں میں مر گئے
اِک بہانہ یہی سُوجھا تھا کہ وہ نہ جائے کہیں
دیکھا اگر دل نےاُسے تو دل گنوا بیٹھیں گئے
نکلتے نہیں باہر کہ سامنا ہو نہ جائے کہیں