کسی کو دل میں بسا کے ہم نے نصیب اپنا جگا لیا
نہ فکرساقی نہ فکر مینا غموں سے دامن چھڑا لیا
بھلے نظر سے ہی دور ہیں وہ مگر ہماری نظر میں ہیں
اُنہیں نگاہوں کی پتلیوں میں ہی گویا ہم نے سجا لیا
کبھی تصوّر میں آگئے وہ کبھی تخیّل میں آگئے
یہی تو دن رات کا فسانہ اِسی میں جی کو کھپا دیا
نہ سوچا سمجھا نہ دیکھا بھالا ڈگر پہ اُن کی چلا گیا
قدم کبھی لڑکھڑاۓ بھی تو قدم کو ہم نے جما لیا
نہ اثر کو قیس سے ہے مطلب نہ دشت وصحرا کی سیر کی
مٹا دیا جب خودی کو اس نے یہ راز سارا ہی پا لیا