کنارے بھی سہاروں کی طرح سے چھوٹ جاتے ہیں
تو انسانوں کو ہم کس لیے کیوں آزماتے ہیں
وجودِ زن سے گر قائم ہے رنگ ق بو زمانے گی
سرِ بازار کیوں بیٹی بہو کو ہم نچاتے ہیں
میری سوچوں میں وحشت ہے میری سوچوں میں حیرانی
زمیں پر خاک پتلے خاک کیوں اپنی سجاتے ہیں
گل و گلزار کیوں ہوگی زمیں ہم سے پریشاں ہے
زمیں کی گود میں ہم فصلِ نفرت ضو اگاتے ہیں
تخیل توڑ دیتا ہے در و دیوار وشمہ کے
یہاں انسان جب انسان کے لاشے گراتے ہیں