کوئی رشتہ، نہ رفاقت، نہ شناسا کوئی
اس بھرے شہر میں ہم سا نہیں تنہا کوئی
حسرت و یاس کا طوفان چھپا کر دل میں
چپکے چپکے سے بسا بیٹھے ہیں صحرا کوئی
وہ جو کرتے ہیں بڑی سادہ سی دلکی باتیں
پیار ہی پیار میں دے جاتے ہیں دھوکہ کوئی
ہم غضب کر گئے اظہار محبت کر کے
وہ لگا بیٹھے سرعام تماشا کوئی
ہم بھی کترا کے نکل جاتے ہیں دامن اپنا
وہ بھی کرتے نہیں اور تقاضا کوئی
جس طرح نکلے ہو تم کوئے بتاں سے 'برہم'
اے خدا اور نہ ہو شہر میں رسوا کوئی