ہوئے ہیں ایسے جدا کہ کوئی سلسلہ ناں رہا
کیسے بتائیں سبب ہم میں حوصلہ ناں رہا
وفا کے دیپ جلے تھے وہ سب بے نور ہوئے
ہمیں بھی اپنے چراغوں سے کچھ گلہ ناں رہا
تڑپتی راتیں ہیں اور چاند کی وہ بے خوابی
وہ ایک در تھا محبت کا اب کھلا ناں رہا
سلگتے ارمانوں میں ہے راکھ گزرے موسم کی
کریں اب کیسے محبت کہ کچھ صلہ ناں رہا