کوئی نہیں ہے دم یار تری تو بات میں
بیٹھے اداس کیوں ہو حسیں اتنی رات میں
تنہائی میں وہ لمحے ہمیں یاد آتے ہیں
اکٹھے چلے تھے ہم تو کبھی ایک ساتھ میں
دینا نہیں ہے زیب کسی مسلمان کو
فرقے بنا کے بٹ گئے ہو ذات پات میں
بیمار عشق جاتے ہیں دیدار کے لیے
رکھ دی خدا نے جو ہے شفا ان کے ہاتھ میں
ہو مبتلا گیا ہوں میں کب سے عذاب میں
آیا نہیں ہے یار تو میری برات میں
تنہائی کی یہ راتیں سرد کٹتی اب نہیں
ٹائر جلا. کے بیٹھے ہیں برفیلی رات میں
رب نے حسین خوب دیا تم کو،حسن ہے
آیا نہیں ہے تم سا حسیں کائنات میں