میری آنکھوں سے دیکھے کوئی مرے محبوب کا حسن
اس کی ہر ادا میں قدرت کا رنگ کڑوٹ بدلتا ہے
حثیت وفا کی کتنی ہی ہے
بس تین لفظ کا مجومعہ ہے
اور دغا کے تین لفظ پہ ختم ہوا ہے
اے دل تو نکل کیوں نہیں جاتا مرے سینے سے
کیوں بار بار اس شخص کے ہاتھ مری انا ذلیل کرواتا ہے
کسی پہ محبت کا عروج آیا
مری محبت کا زوال بہت بے مثال آیا
اس سے بچھڑ بھی جاؤں
اس پہ کوئی اثر نہ ہو گا
اس کا دل بہلانے کے لیے زندہ ابھی بہت لوگ ہیں
جیسے جیسے رات بڑھ
رہی ہے
ویسے ویسے تنہائی ڈس
رہی ہے
اے دل سنبھل جا
ابھی ہجر کی راتیں اور بھی ہیں
نگاہوں میں شبنم اتر آئی ہے
خوشبو اس کے در ہو کر آئی ہے
بتا رہی ہے حال اس سنگدل ہرجائی کا
اس کے گھر تو خوشیوں کی بارات سنور آئی ہے