کچھ فرصتِ خیالِ نگارِ وطن بھی ہو
ہیں باغباں تو آ پ کو فکرِ چمن بھی ہو
رکھیئے اُسی سے انجمن آ رائی کی اُمید
جو شخص اپنی ذات میں خود انجمن بھی ہو
مشروط تیرے حسنُ سے ہے میری شاعری
یعنی پسِ خیال ترِا بانکپن بھی ہو
سیدھی سی بات ہے اے مرِے بھولے بادشاہ
ہو عاشقی تو ساتھ میں دیوانہ پنَ بھی ہو
ویسے تو وہ بھی دیر سے خاموش تھا ، مگر
لازم نہیں وہ آپ سا خالی ذہن بھی ہو
دھڑکا رہے نہ وقت کے قدموں کی چاپ کا
انسان اپنی ذات میں اتنا مگنَ بھی ہو
الزامِ بے وفائی بھلا اور اُسکی ذات
مشکل ہے جسکی شکل پہ اک بھولا پن بھی ہو
گر یو ں ہے زخم زخم ترِی چاہتوں کا تن
مثلِ گلاب ، خون ترِا پیرہن بھی ہو
اے وقت مسکرا کے ذرا پاس سے گزر
لازم نہیں کہ ماتھے پہ تیرے شکن بھی ہو