گر یہ ممکن ہے کہ اک بار سجا ؤ تو سہی
میرے پہلو میں کوئی پھول کھلا ؤ تو سہی
پھر سے آیا ہے خفا رہنے کا موسم لیکن
پیار تو پیار ہے اس کو بھی نبھاؤ تو سہی
دل کی تنہائی کے کمرے میں اٹھے درد اگر
زندگی پیار کا نغمہ ہے یہ گاؤ تو سہی
اس کی عادت ہے کہ ملتے ہی جدا ہو جانا
اس کی رفتار سے بس ہاتھ ملاؤ تو سہی
دن تو کاٹوں گی جدائی کے کسی دشت کے ساتھ
میری راتوں میں مجھے ملنے تو آؤ تو سہی
چھوڑو نفرت کی سبھی باتوں کو اے انسانوں
شعلے نفرت کے محبت سے بجھا ؤ تو سہی
رات کے پچھلے پہر وشمہ اگر درد بڑھے
آج کی شب تو کسی طور نبھاؤ تو سہی