ہاں تمہیں خبر نہیں ہے آج
میرے دل کے دریچے کے پآ س بیٹھا تھا
اس کے آنکھوں سے چھلکے ہوے اشکوں سے میں
میں جو یوں بھیگتا رہتا تھا غمزدہ رہتا
آج میں اپنے ہوش کھو بیٹھا
کہ اس کی بھولی ہوئی صورت میں کیوں؟
کتنے دفن شرارے ہیں آج
تیری امید سرابو کی مانند
دور سے دریا کا گماں کرتا ہوں
ساتھ او بیٹھنے والے تیری سانسوں کی قسم
اب بھی پندار محبت کا بھرم رکھتا ہوں
میں نے عمر سے چاہا ہے تمہیں
ہاں تمہیں خبر نہیں ہے آج