ہجر میں کچھ ملال بھی تو ہو
یاد سے دل نڈھال بھی تو ہو
ہم جیئں گے خوشی خوشی لیکن
اِس میں کوئی کمال بھی تو ہو
چھیل لیں گے گلا ہی اپنا ہم
لب پہ کوئی سوال بھی تو ہو
وہ ہمارے تئیں کمال رہا
کاش اُس کو زوال بھی تو ہو
ہو ہی جائیں گے ہم کسی اور کہ
پر کوئی بے مثال بھی تو ہو
سبھی ممکن رہا ہے تیرے لیے
اے خدا، کچھ محال بھی تو ہو
عمر بھر کے فراق میں تیرے
ایک لمحہ وصال بھی تو ہو
کر رہا ہوں میں زندگی برباد
کبھی اِس پر ملال بھی تو ہو
ہیں سبھی مثل ایک دُوجے کی
اور خدا کی مثال بھی تو ہو
اور سہنے ہیں کربِ زیست مگر
کچھ طبیعت بحال بھی تو ہو
اے خدا، ہم تباہ حالوں کا
کوئی پُرسانِ حال بھی تو ہو