ہر ایک چیز میں جیسے نشان تیرا ہے
ہر ایک پھول پہ مجھ کو گمان تیرا ہے
کروں تو کیسے کروں امتحاں کی تیاری
کتاب ہاتھ میں ہے پر دھیان تیرا ہے
تری جھلک کے لیے کھڑکیوں کو تکتا ہوں
ملی ہے جب سے خبر یہ مکان تیرا ہے
ترے ہی حسن پہ کرتا ہوں شاعری کہ مرے
ہر ایک شعر میں ہوتا بیان تیرا ہے
ترے سوا مری نظروں میں کوئی جچتا نہیں
جو ہیار دل میں بسا ہے وہ جان تیرا ہے
ہے میرا دل جو محبت میں اس قدر گھائل
قصور اس میں تو چاہے نہ مان تیرا ہے
میں کچھ بھی سوچوں مگر تجھ کو بھولتا ہی نہیں
کہ میری سوچوں کا سارا جہان تیرا ہے
مرے خلوص و وفا کو پرکھ لیا تو نے
صلہ بھی دیتا ہے اب امتحان تیرا ہے