ہم مسکرانے لگے ہیں , کچھ گنگنانے لگے ہیں
پرمسرت پلوں کو وجود تن میں سمانے لگے ہیں
خوشبو چمیلی کی بن آنگن کو مہکانے لگے ہیں
نغمہ دل فریب تہہِ دل سے گانے لگے ہیں
عاشقانہ دھن شب و روز بجانے لگے ہیں
دن شادمانی کہ جو قریب آنے لگے ہیں
ڈفلی کی تھام پر جھوم جانے لگے ہیں
بادل وہ غمگین شام کہ جھٹ جانے لگے ہیں
تاروں کی جھلملاہٹ سے آنگن سجانے لگے ہیں
آتے کل کو ہم آج میں جینے لگے ہیں
امر ہوتے سپنوں کو پرونے لگے ہیں
رعنائی زندگی سے بغلگیر ہونے لگے ہیں
اسکو اپنا سمجھ اس میں کھونے لگے ہیں
ہر سکھ میں اسکے سکھی ہونے لگے ہیں
زیرلب ہر دعا میں کنول کی ہونے لگے ہیں
ہم مسکرانے لگے ہیں, کچھ گنگنانے لگے ہیں