یاد آ گئی وہ بات تھے زنجیر پاؤں کی
گزرے وہ دن وہ رات تھے زنجیر پاؤں کی
ان کے یہاں خاموش تھے قلم و زبان ہی
بحرِ تکلفات تھے زنجیر پاؤں کی
دہلیز ان کی چھوڑ کے آتے بھی کس طرح
حرفِ سفارشات تھے زنجیر پاؤں کی
ان سے جو دل کی بات بھی کھل کر نہ ہو سکی
دراصل کچھ حالات تھے زنجیر پاؤں کی
میں ہر گھڑی جو شعر و سخن سے جڑا رہا
ضیغم تخیلات تھے زنجیر پاؤں کی