یہ بھی کچھ کم نہیں ہے کہ دل بکھرنے کا
ہے وقت ابھی ماحول میں سے نکلنے کا
ہر امتحان سے بے پناہ یوں ابھرنے کا
غم درد سے دل میرا یوں بھرنے کا
گرد غم سے اشارہ گیا ہے گزرنے کا
اور میں سوچتی رہ گئی یوں سنورنے کا
نگائیں اب کہاں کہاں کیسے نہیں ٹہرنے کا
یہی تو سلیقہ ہے ہر ظلم کو سہنے کا