یہ جو مخملیں تری زلفیں ہیں
کوئی میکدے پہ نقاب ہو
تری اک جھلک کو میں پا لوں گر
مری آنکھ کچھ تو سراب ہو
تو چلے جو خود کو سمیٹ کر
مرا جینا اور عذاب ہو
ترے ہجر میں ہیں جو مر رہے
ارے اب تو ان کا حساب ہو
تجھے سوچنا یوں جو رات دن
کوئی زندگی کا نصاب ہو
یہاں ہمتا تیرا کوئی نہیں
یہاں تم حسن کی نواب ہو