اے صنم جس نے تجھے چاند سی صورت دی ہے
Poet: حیدر علی آتش By: سلمان علی, Karachiاے صنم جس نے تجھے چاند سی صورت دی ہے
اسی اللہ نے مجھ کو بھی محبت دی ہے
تیغ بے آب ہے نے بازوئے قاتل کمزور
کچھ گراں جانی ہے کچھ موت نے فرصت دی ہے
اس قدر کس کے لیے یہ جنگ و جدل اے گردوں
نہ نشاں مجھ کو دیا ہے نہ تو نوبت دی ہے
سانپ کے کاٹے کی لہریں ہیں شب و روز آتیں
کاکل یار کے سودے نے اذیت دی ہے
آئی اکسیر غنی دل نہیں رکھتی ایسا
خاکساری نہیں دی ہے مجھے دولت دی ہے
شمع کا اپنے فتیلہ نہیں کس رات جلا
عمل حب کی بہت ہم نے بھی دعوت دی ہے
جسم کو زیر زمیں بھی وہی پہونچا دے گا
روح کو جس نے فلک سیر کی طاقت دی ہے
فرقت یار میں رو رو کے بسر کرتا ہوں
زندگانی مجھے کیا دی ہے مصیبت دی ہے
یاد محبوب فراموش نہ ہووے اے دل
حسن نیت نے مجھے عشق سے نعمت دی ہے
گوش پیدا کیے سننے کو ترا ذکر جمال
دیکھنے کو ترے، آنکھوں میں بصارت دی ہے
لطف دل بستگیٔ عاشق شیدا کو نہ پوچھ
دو جہاں سے اس اسیری نے فراغت دی ہے
کمر یار کے مضمون کو باندھو آتشؔ
زلف خوباں سی رسا تم کو طبیعت دی ہے
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






