Good Morning Poetry, Shayari & Status
Good Morning Shayari is best way to express your words and emotion. Check out the amazing collection of express your feeling in words. This section is based on a huge data of all the latest Good Morning Status & Quotes that can be dedicated to your family, friends and love ones. Convey the inner feelings of heart with this world’s largest Good Morning Shayari in urdu 2 lines compilation that offers an individual to show the sentiments through words.
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر
خدا اگر دل فطرت شناس دے تجھ کو
سکوت لالہ و گل سے کلام پیدا کر
اٹھا نہ شیشہ گران فرنگ کے احساں
سفال ہند سے مینا و جام پیدا کر
میں شاخ تاک ہوں میری غزل ہے میرا ثمر
مرے ثمر سے مے لالہ فام پیدا کر
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام پادشاہی
تری زندگی اسی سے تری آبرو اسی سے
جو رہی خودی تو شاہی نہ رہی تو رو سیاہی
نہ دیا نشان منزل مجھے اے حکیم تو نے
مجھے کیا گلہ ہو تجھ سے تو نہ رہ نشیں نہ راہی
مرے حلقۂ سخن میں ابھی زیر تربیت ہیں
وہ گدا کہ جانتے ہیں رہ و رسم کج کلاہی
یہ معاملے ہیں نازک جو تری رضا ہو تو کر
کہ مجھے تو خوش نہ آیا یہ طریق خانقاہی
تو ہما کا ہے شکاری ابھی ابتدا ہے تیری
نہیں مصلحت سے خالی یہ جہان مرغ و ماہی
تو عرب ہو یا عجم ہو ترا لا الٰہ الا
لغت غریب جب تک ترا دل نہ دے گواہی
افق سے آفتاب ابھرا گیا دور گراں خوابی
عروق مردۂ مشرق میں خون زندگی دوڑا
سمجھ سکتے نہیں اس راز کو سینا و فارابی
مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفان مغرب نے
تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی
عطا مومن کو پھر درگاہ حق سے ہونے والا ہے
شکوہ ترکمانی ذہن ہندی نطق اعرابی
اثر کچھ خواب کا غنچوں میں باقی ہے تو اے بلبل
نوا را تلخ ترمی زن چو ذوق نغمہ کم یابی
تڑپ صحن چمن میں آشیاں میں شاخساروں میں
جدا پارے سے ہو سکتی نہیں تقدیر سیمابی
وہ چشم پاک ہیں کیوں زینت بر گستواں دیکھے
نظر آتی ہے جس کو مرد غازی کی جگر تابی
ضمیر لالہ میں روشن چراغ آرزو کر دے
چمن کے ذرے ذرے کو شہید جستجو کر دے
سرشک چشم مسلم میں ہے نیساں کا اثر پیدا
خلیل اللہ کے دریا میں ہوں گے پھر گہر پیدا
کتاب ملت بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
یہ شاخ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا
ربود آں ترک شیرازی دل تبریز و کابل را
صبا کرتی ہے بوئے گل سے اپنا ہم سفر پیدا
اگر عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
جہاں بانی سے ہے دشوار تر کار جہاں بینی
جگر خوں ہو تو چشم دل میں ہوتی ہے نظر پیدا
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
نوا پیرا ہو اے بلبل کہ ہو تیرے ترنم سے
کبوتر کے تن نازک میں شاہیں کا جگر پیدا
ترے سینے میں ہے پوشیدہ راز زندگی کہہ دے
مسلماں سے حدیث سوز و ساز زندگی کہہ دے
خدائے لم یزل کا دست قدرت تو زباں تو ہے
یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے
پرے ہے چرخ نیلی فام سے منزل مسلماں کی
ستارے جس کی گرد راہ ہوں وہ کارواں تو ہے
مکاں فانی مکیں فانی ازل تیرا ابد تیرا
خدا کا آخری پیغام ہے تو جاوداں تو ہے
حنا بند عروس لالہ ہے خون جگر تیرا
تری نسبت براہیمی ہے معمار جہاں تو ہے
تری فطرت امیں ہے ممکنات زندگانی کی
جہاں کے جوہر مضمر کا گویا امتحاں تو ہے
جہان آب و گل سے عالم جاوید کی خاطر
نبوت ساتھ جس کو لے گئی وہ ارمغاں تو ہے
یہ نکتہ سر گزشت ملت بیضا سے ہے پیدا
کہ اقوام زمین ایشیا کا پاسباں تو ہے
سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
یہی مقصود فطرت ہے یہی رمز مسلمانی
اخوت کی جہانگیری محبت کی فراوانی
بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی
میان شاخساراں صحبت مرغ چمن کب تک
ترے بازو میں ہے پرواز شاہین قہستانی
گماں آباد ہستی میں یقیں مرد مسلماں کا
بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی
مٹایا قیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے
وہ کیا تھا زور حیدر فقر بوذر صدق سلمانی
ہوئے احرار ملت جادہ پیما کس تجمل سے
تماشائی شگاف در سے ہیں صدیوں کے زندانی
ثبات زندگی ایمان محکم سے ہے دنیا میں
کہ المانی سے بھی پایندہ تر نکلا ہے تورانی
جب اس انگارۂ خاکی میں ہوتا ہے یقیں پیدا
تو کر لیتا ہے یہ بال و پر روح الامیں پیدا
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
ولایت پادشاہی علم اشیا کی جہانگیری
یہ سب کیا ہیں فقط اک نکتۂ ایماں کی تفسیریں
براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں
تمیز بندہ و آقا فساد آدمیت ہے
حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں
حقیقت ایک ہے ہر شے کی خاکی ہو کہ نوری ہو
لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرے کا دل چیریں
یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
چہ باید مرد را طبع بلندے مشرب نابے
دل گرمے نگاہ پاک بینے جان بیتابے
عقابی شان سے جھپٹے تھے جو بے بال و پر نکلے
ستارے شام کے خون شفق میں ڈوب کر نکلے
ہوئے مدفون دریا زیر دریا تیرنے والے
طمانچے موج کے کھاتے تھے جو بن کر گہر نکلے
غبار رہ گزر ہیں کیمیا پر ناز تھا جن کو
جبینیں خاک پر رکھتے تھے جو اکسیر گر نکلے
ہمارا نرم رو قاصد پیام زندگی لایا
خبر دیتی تھیں جن کو بجلیاں وہ بے خبر نکلے
حرم رسوا ہوا پیر حرم کی کم نگاہی سے
جوانان تتاری کس قدر صاحب نظر نکلے
زمیں سے نوریان آسماں پرواز کہتے تھے
یہ خاکی زندہ تر پایندہ تر تابندہ تر نکلے
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر نکلے
یقیں افراد کا سرمایۂ تعمیر ملت ہے
یہی قوت ہے جو صورت گر تقدیر ملت ہے
تو راز کن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا
خودی کا رازداں ہو جا خدا کا ترجماں ہو جا
ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوع انساں کو
اخوت کا بیاں ہو جا محبت کی زباں ہو جا
یہ ہندی وہ خراسانی یہ افغانی وہ تورانی
تو اے شرمندۂ ساحل اچھل کر بے کراں ہو جا
غبار آلودۂ رنگ و نسب ہیں بال و پر تیرے
تو اے مرغ حرم اڑنے سے پہلے پرفشاں ہو جا
خودی میں ڈوب جا غافل یہ سر زندگانی ہے
نکل کر حلقۂ شام و سحر سے جاوداں ہو جا
مصاف زندگی میں سیرت فولاد پیدا کر
شبستان محبت میں حریر و پرنیاں ہو جا
گزر جا بن کے سیل تند رو کوہ و بیاباں سے
گلستاں راہ میں آئے تو جوئے نغمہ خواں ہو جا
ترے علم و محبت کی نہیں ہے انتہا کوئی
نہیں ہے تجھ سے بڑھ کر ساز فطرت میں نوا کوئی
ابھی تک آدمی صید زبون شہریاری ہے
قیامت ہے کہ انساں نوع انساں کا شکاری ہے
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
وہ حکمت ناز تھا جس پر خرد مندان مغرب کو
ہوس کے پنجۂ خونیں میں تیغ کارزاری ہے
تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا
جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
خروش آموز بلبل ہو گرہ غنچے کی وا کر دے
کہ تو اس گلستاں کے واسطے باد بہاری ہے
پھر اٹھی ایشیا کے دل سے چنگاری محبت کی
زمیں جولاں گہہ اطلس قبایان تتاری ہے
بیا پیدا خریدا راست جان نا توانے را
پس از مدت گزار افتاد برما کاروانے را
بیا ساقی نوائے مرغ زار از شاخسار آمد
بہار آمد نگار آمد نگار آمد قرار آمد
کشید ابر بہاری خیمہ اندر وادی و صحرا
صدائے آبشاراں از فراز کوہسار آمد
سرت گردم توہم قانون پیشیں ساز دہ ساقی
کہ خیل نغمہ پردازاں قطار اندر قطار آمد
کنار از زاہداں برگیر و بیباکانہ ساغر کش
پس از مدت ازیں شاخ کہن بانگ ہزار آمد
بہ مشتاقاں حدیث خواجۂ بدرو حنین آور
تصرف ہائے پنہانش بچشم آشکار آمد
دگر شاخ خلیل از خون ما نمناک می گردد
ببازار محبت نقد ما کامل عیار آمد
سر خاک شہیرے برگ ہائے لالہ می پاشم
کہ خونش بانہال ملت ما سازگار آمد
بیا تا گل بفیشانیم و مے در ساغر اندازیم
فلک را سقف بشگافیم و طرح دیگر اندازیم
اور اس خدمت پيغام سحر کو چھوڑوں
ميرے حق ميں تو نہيں تاروں کي بستي اچھي
اس بلندي سے زميں والوں کي پستي اچھي
آسماں کيا ، عدم آباد وطن ہے ميرا
صبح کا دامن صد چاک کفن ہے ميرا
ميري قسمت ميں ہے ہر روز کا مرنا جينا
ساقي موت کے ہاتھوں سے صبوحي پينا
نہ يہ خدمت، نہ يہ عزت، نہ يہ رفعت اچھي
اس گھڑي بھر کے چمکنے سے تو ظلمت اچھي
ميري قدرت ميں جو ہوتا، تو نہ اختر بنتا
قعر دريا ميں چمکتا ہوا گوہر بنتا
واں بھي موجوں کي کشاکش سے جو دل گھبراتا
چھوڑ کر بحر کہيں زيب گلو ہو جاتا
ہے چمکنے ميں مزا حسن کا زيور بن کر
زينت تاج سر بانوئے قيصر بن کر
ايک پتھر کے جو ٹکڑے کا نصيبا جاگا
خاتم دست سليماں کا نگيں بن کے رہا
ايسي چنروں کا مگر دہر ميں ہے کام شکست
ہے گہر ہائے گراں مايہ کا انجام شکست
زندگي وہ ہے کہ جو ہو نہ شناسائے اجل
کيا وہ جينا ہے کہ ہو جس ميں تقاضائے اجل
ہے يہ انجام اگر زينت عالم ہو کر
کيوں نہ گر جائو ں کسي پھول پہ شبنم ہو کر!
کسي پيشاني کے افشاں کے ستاروں ميں رہوں
کس مظلوم کي آہوں کے شراروں ميں رہوں
اشک بن کر سرمژگاں سے اٹک جائوں ميں
کيوں نہ اس بيوي کي آنکھوں سے ٹپک جائوں ميں
جس کا شوہر ہو رواں، ہو کے زرہ ميں مستور
سوئے ميدان وغا ، حب وطن سے مجبور
ياس و اميد کا نظارہ جو دکھلاتي ہو
جس کي خاموشي سے تقرير بھي شرماتي ہو
جس کو شوہر کي رضا تاب شکيبائي دے
اور نگاہوں کو حيا طاقت گويائي دے
زرد ، رخصت کي گھڑي ، عارض گلگوں ہو جائے
کشش حسن غم ہجر سے افزوں ہو جائے
لاکھ وہ ضبط کرے پر ميں ٹپک ہي جائوں
ساغر ديدئہ پرنم سے چھلک ہي جائوں
خاک ميں مل کے حيات ابدي پا جائوں
عشق کا سوز زمانے کو دکھاتا جائوں
يہي نماز ادا صبح و شام کرتے ہيں
خصوصيت نہيں کچھ اس ميں اے کليم تري
شجر حجر بھي خدا سے کلام کرتے ہيں
نيا جہاں کوئي اے شمع ڈھونڈيے کہ يہاں
ستم کش تپش ناتمام کرتے ہيں
بھلي ہے ہم نفسو اس چمن ميں خاموشي
کہ خوشنوائوں کو پابند دام کرتے ہيں
غرض نشاط ہے شغل شراب سے جن کي
حلال چيز کو گويا حرام کرتے ہيں
بھلا نبھے گي تري ہم سے کيونکر اے واعظ!
کہ ہم تو رسم محبت کو عام کرتے ہيں
الہي سحر ہے پيران خرقہ پوش ميں کيا!
کہ اک نظر سے جوانوں کو رام کرتے ہيں
ميں ان کي محفل عشرت سے کانپ جاتا ہوں
جو گھر کو پھونک کے دنيا ميں نام کرتے ہيں
ہرے رہو وطن مازني کے ميدانو!
جہاز پر سے تمھيں ہم سلام کرتے ہيں
جو بے نماز کبھي پڑھتے ہيں نماز اقبال
بلا کے دير سے مجھ کو امام کرتے ہيں
مبادا خندۂ دنداں نما ہو صبح محشر کی
رگ لیلیٰ کو خاک دشت مجنوں ریشگی بخشے
اگر بووے بجاۓ دانہ دہقاں نوک نشتر کی
پر پروانہ شاید بادبان کشتی مے تھا
ہوئی مجلس کی گرمی سے روانی دور ساغر کی
کروں بے داد ذوق پر فشانی عرض کیا قدرت
کہ طاقت اڑ گئی اڑنے سے پہلے میرے شہ پر کی
کہاں تک روؤں اس کے خیمے کے پیچھے قیامت ہے
مری قسمت میں یارب کیا نہ تھی دیوار پتھر کی
بجز دیوانگی ہوتا نہ انجام خود آرائی
اگر پیدا نہ کرتا آئنہ زنجیر جوہر کی
غرور لطف ساقی نشۂ بیباکی مستاں
نم دامان عصیاں ہے طراوت موج کوثر کی
مرا دل مانگتے ہیں عاریت اہل ہوس شاید
یہ جانا چاہتے ہیں آج دعوت میں سمندر کی
اسدؔ جز آب بخشیدن ز دریا خضر کو کیا تھا
ڈبوتا چشمۂ حیواں میں گر کشتی سکندر کی
جاؤ بھی اب تم مرے کس کام کے
ہاتھا پائی سے یہی مطلب بھی تھا
کوئی منہ چومے کلائی تھام کے
تم اگر چاہو تو کچھ مشکل نہیں
ڈھنگ سو ہیں نامہ و پیغام کے
چھیڑ واعظ ہر گھڑی اچھی نہیں
رند بھی ہیں ایک اپنے نام کے
قہر ڈھائے گی اسیروں کی تڑپ
اور بھی الجھیں گے حلقے دام کے
محتسب چن لینے دے اک اک مجھے
دل کے ٹکڑے ہیں یہ ٹکڑے جام کے
لاکھوں دھڑکے ابتدائے عشق میں
دھیان ہیں آغاز میں انجام کے
مے کا فتویٰ تو سہی قاضی سے لوں
ٹوک کر رستے میں دامن تھام کے
دور دور محتسب ہے آج کل
اب کہاں وہ دور دورے جام کے
نام جب اس کا زباں پر آ گیا
رہ گیا ناصح کلیجا تھام کے
دور سے نالے مرے سن کر کہا
آ گئے دشمن مرے آرام کے
ہائے وہ اب پیار کی باتیں کہاں
اب تو لالے ہیں مجھے دشنام کے
وہ لگائیں قہقہے سن کر حفیظؔ
آپ نالے کیجئے دل تھام کے
Ready steady, went to work again
When the morning came
It was hard to leave the warmth of thy bed, in winter’s time
But sun was new, as was the grass and the tress on top
When the morning came
Let me recall my favorite thing
Half fried egg, with tea and bread, brought by life
When the morning came
آج دھرتی پہ جب آنا تم
میرے دیس میں خوشیاں لانا تم
میرے دیس کے سارے لوگوں نے
مجبور بیچارے لوگوں نے
ہر سانس پہ زخم اُٹھائے ہیں
ہر روز ہی اشک بہائے ہیں
اِن اُداس مغموم دِلوں کے لئے
پیامِ مسرت لانا تم
اے نئے سال کی پہلی صبح
آج دھرتی پہ جب آنا تم
اس دیس میں جو فسادی ہیں
انتشاری ہیں، عنادی ہیں
جو سکون دِلوںکا لُوٹتے ہیں
جانے وہ کیوں نہیں ٹوٹتے ہیں؟
ان پر بجلی گرانا تم
اے نئے سال کی پہلی صبح
آج دھرتی پہ جب آنا تم
اس دیس کے بوڑھے ، بچوں میں
معصوم اور من کے سچوں میں
مدت سے سوئے شاہینوں میں
مدھم پڑے نگینوں میں
پھر زندہ تمنا جگانا تم
اے نئے سال کی پہلی صبح
آج دھرتی پہ جب آنا تم
میرے دیس میں خوشیاں لانا تم
تیرے ہی نام اپنا سب کلام کرتی ہوں
جہاں لگ جائے تیرے ذکر کی محفل
میں وہیں پہ قیام کرتی ہوں
جو بھی لیتا ہے تیرا نام میرے سامنے
میں عقیدت میں اسے سلام کرتی ہوں
نہیں چھپایا اپنا پیارا سا تعلق کسی سے
تیرے نام کے چرچے سر عام کرتی ہوں
آجائے جو تیری یاد بھی تو پلکیں جھکا لیتی ہوں
میں یوں تیرا احترام کرتی ہوں
ملا ہے جو خواب میں کھو نہ جائے کہیں
تیرے پردے کی خاطر ملتا نہیں کسی سے
حُسن دنیا میں تیرا رسوا ھو نہ جائے کہیں
شبِ ہجر میں تیرے ملنے کے ہر وعدہ کا
دلاتےہیں یقین دل کو، سونہ جائے کہیں
ہم شبِ وصل میں اُنکی باںہوں میں مر گئے
اِک بہانہ یہی سُوجھا تھا کہ وہ نہ جائے کہیں
دیکھا اگر دل نےاُسے تو دل گنوا بیٹھیں گئے
نکلتے نہیں باہر کہ سامنا ہو نہ جائے کہیں
محبتوں بھرا یہ پیغام بھیجا ہے
یہ کسی اور کہ لیے نہیں ہے
صرف آپ کہ ہی نام بھیجا ہے
یقیں نہیں تو پڑھ کردیکھ لو
کتنا خلوص واحترام بھیجا ہے
کتنےخوش نصیب ہیں آپ جانم
پہلی باراالفت کاجام بھیجاہے
دل سےلگاؤ گےتو راحت پاؤگے
یہ جو اتنا پیارا کلام بھیجا ہے
وہ شب کی آنکھوں میں سیاہ کاجل
ندی کے پانی میں عکس نرگس
فلک کے دامن میں چلتا بادل
وہ ابرنیساں کا پہلا قطرہ
دھنک کے رنگوں کی مسکراہٹ
افق کے گالوں کی وہ شفق ھے
وہ ہی تخیل کی قلبی راھت
وہ جس سے باد صباء میں ٹھنڈک
وہ جس سے شبنم میں تازگی سی
جس کی آنکھوں کے رنگ بحر میں
اسی سے لہروں میں زندگی سی
چمن کے پہلو میں گل فشانی
گلوں سے عنبرورنگ فشانی
کسی شجر کی گداز کونپل
وہ تتلیوں کی حسین رانی
سب حسن آفاق اس کے دم سے
جو وہ نہیں تو ختم کہانی
بھولی بسری بات مجھے پھر صبح سویرے
سورج کی پہلی کرن جو اتری آنگن میں
کرنوں کی برسات لئے پھر صبح سویرے
دھوپ کی پہلی کرن سے پہلے آنگن میں
طائر اترے سوغات لئے پھر صبح سویرے
بلبل چڑیا اور کوئل کے میٹھے سریلے نغمے
جیسے کہ سر سات سنے پھر صبح سویرے
باد سحر کے نرم شبنمی جھونکوں سے
شاداب ہوئے پھولوں کے ہاتھ پھر صبح سویرے
قدرت نے عنایت کی ہیں کیا کیا سوغاتیں
سبحان اللہ کلمات کہے پھر صبح سویرے
عظمٰی قدرت کے نظارے آ کے تم بھی دیکھو
پھولوں کی حسیں برسات کہے پھر صبح سویرے
یاد آئی وہ بات مجھے پھر صبح سویرے
بھولی بسری بات مجھے پھر صبح سویرے
جب تمہیں میرا انتظار تھا
اک لمہ بھی میرے بناء
گزارنا تمہارے لیے محال تھا
تب تو تمہارے دل میں
صرف میرا ہی خیال تھا
ُاس دن تمہاری آنکھوں میں
پیار ہی پیار تھا جس دن میرا
تمہارے پاس رکنا بہت دشوار تھا
میرے پروں میں بندی تھی
رشتوں کی زنجیریں لکی
ُخدا ہی جانے کہ ُاس دن
میرا کون سا امتحان تھا
جب دیکھا تیری طرف تو
میں سب کچھ بول گئی
شاید ! مجھے بھی تیری
ُاسی نظر کا انتظار تھا
میں خاموش رہی تجھے سنتی رہی
ُاس دن تیری آواز میں
بھی کتنا مٹھاس تھا
شاید ! میرے تصیب میں
پچہلے سال کا ایک ہی دن
تیرے ساتھ کا تھا
یہ ہرمحفل سخن میں موجود ہوتا ہے
سستی شہرت کی خاطر طنز نہیں کرتا
کسی کا دل دکھانا کہاںمقصود ہوتا ہے
اس دنیا میں جتنےبھی کم ظرف ہیں
ایسےلوگوں کو سمجھانا بے سود ہوتا ہے
پڑوسن سے کہا میں صبح لسی پیتا ہوں
بولی اصغر وہ میرا ہی دودھ ہوتا ہے
کہنے لگی تم انٹرسٹ کیوں نہیں لیتے
میںنے کہا اسلام میں سود مردود ہوتا ہے
ماہتاب کہیں کھو جاتا ہے
شب کا آخری تارا بھی
چپکے سے سوجاتا ہے
رات کی سرمئی چادر سے
آفتاب کی پہلی کرن جھانکتی ہے
جیسے ہو کوئی کمسن دلہن
باد صبا کے نرم جھونکے
چوم کے منہ بند کلیوں کا
کھلتا پھول بنا دیتے ہیں
رات کے آنسو موتی بن کر
نظروں کو بھا جاتے ہیں
ابھی چمکتے ہیں ابھی کھو جاتے ہیں
کتنے پنچھی گاتے ہیں
سب ہی دل کو بھاتے ہیں
ایسے میں تیری یادوں کے
خشک پھول بھی مہک جاتے ہیں
وہ گھڑی کب ھو گی ؟
لکھا جائے میرا اور تمہارا نام
وہ خوبصورت لکھائی کب ھو گی ؟
ہر دعا میں کروں شکر خدا کا
شکریہ خدا دعا کب ھو گی ؟
میری ہر بات تم سے ھو شروع
وہ بات شروع کب ھو گی ؟
آنکھ کھولتے ہی دیکھوں تمہیں
وہ حسین صبح کب ھو گی ؟
تمہارے آنے کا کروں انتظار
وہ انتظارے شام کب ھو گی ؟
تمہارے ہاتھوں میں ھوں میرے ہاتھ
وہ دلکش رات کب ھو گی ؟
Have a nice day
Your night is as long as you decide to wake!
In front of you new look in every face.
Welcome new day with happiness & joys
The birds are chirping every where.
The system of the world almost tremendous
The sky is blessing for us
God forward, achieve your goal
Respect others with dignity.
Almost people are not forgive each others
Forgive them & embrace with patience.
ميں صاحبِ اختيار کسطرح عہدۂ برخاست کو پہنچا
صاحبوں شب نکاح تھی ميں تھا اور وہ تھے
يوں لگا گويا عشق ميرا اب اختتام کو پہنچا
ايجابِ اسيری کا اس وقت مجھے گمان ہوا
جس لمحہ لفظِ قبول ميرا اپنے انجام کو پہنچا
قبل از نکاح جو ہميشہ ملتجی انداز رہا کيے
بعد از نکاح انکا ہر لفظ درجہ فرمان کو پہنچا
رتبہ پيری بھی تو تھا انکے ظلم و ستم کا تقاضی
يونہی تو نہيں يہ ارسل اس مقامِ فراز کو پہنچا
آگئے وہ لمحاتِ کرب اکبار پھر سے ياد مجھے
جس دم دست ميرا زخم بيلن کے نشان کو پہنچا
پر مبتلائے درد جسم ہوں تو اطمينان روح بھی ہے
کہ زخم در زخم سہی مگر انسانيت کی معراج کو پہنچا
اور اسقدر کام آيا انکا خوفِ قرب عبادت کو ميری
کہ پھر ہر سجدہ شب ميرا صبح کی تلاش کو پہنچا
یہ لوگ جھوٹی دُنیا کےصبح شام بدلتے رہتے ہیں
ہم درد کے ماروں کا دن رات تماشہ ہوتا ہے
آغاز بدلتے رہتے ہیں انجام بدلتے رہتے ہیں
کچھ لوگ ہیں جن کی چَاہت میں ہر پَل دل تڑپتا ہے
وہ لوگ دل کی دنیا میں قیام بدلتے رہتے ہیں
ہم خون کے دِیے جلا جلا کر پوجا جن کو کرتے ہیں
وہ دل کے سارے جذبوں کے دام بدلتے رہتے ہیں
اِس بات کا رونا ہے کہ وہ چپ چاپ ہمیں چھوڑ گیا
دنیا میں تو لوگ ساجد سرِعام بدلتے رہتے ہیں
وہ شخص روشنی لے کر کبھی تو آئے گا
ہم اس امید پہ محوِ سفر ہیں مدت سے
کہ راستے میں تیرا گھر کبھی تو آئے گا
خمارِ بندگی اوڑھے ہوئے کوئی جذبہ
تمہاری روح کو چھو کر کبھی تو آئے گا
کبھی تو سیکھے گا وہ خود سپردگی کا ہنر
وہ اپنی ذات سے باہر کبھی تو آئے گا
ابھی تو اس سے ہزاروں سوال کرنے ہیں
جو جا چکا ہے پلٹ کر کبھی تو آئے گا
میں موج موج اسے روح میں اتاروں گا
وہ خوشبوں کا سمندر کبھی تو آئے گا
ہمارا نام بھی شامل تیرے جواب میں ہے
سوالِ قصہ محشر کبھی تو آئے گا
حسن بکھرنے کو بے تاب ہے یہ شیشہ دل
کسی کی یاد کا پتھر کبھی تو آئے گا
ذرا باہر نکل کے دیکھ آنا
چڑیاں ہیں ڈالی ڈالی چہچہاتی
پھول نے کلی سے شکل نکالی
کرنوں میں حدت نہیں ہے
فضا میں کوئی شدت نہیں ہے
ہوا تازہ ہے‘سانس بھر لیں
صحت کو یوں بھی بہتر کر لیں
اس کی رحمت ہے ہن برساتی
مخلوق خالق کے ہے گن گاتی
انساں بھی نیند سے بیدار ہوئے
کچھ غفلت میں ابھی تلک سوئے
صبح بخیر٬ دن سکوں سے گزرے
کسی کو کسی سے تکلیف نہ ہوئے
Good Morning Poetry
No one can deny the importance of having a good morning as it creates a significant impact on our daily lives. All of them start our day with a lot of energy and the Good Morning Shayari gives us a further boost. It is a reason that several poets have written the Good Morning Shayari in different languages. They conveyed the message of love, peace, and harmony by utilizing the medium of Good Morning Status.
On our website, you will find a beautiful collection of Good Morning Shayari that will develop a good connection between you and your loved ones. In the world of internet, people usually prefer to each other over the social media. They send Good Morning Status to their friends and family members at the start of day to enlighten their mood. The best part is that you can send Good Morning Poetry in the form of both text and images.
Life is a journey with moments that shine bright, Each day brings new hopes, as dark fades to light. We stumble, we rise, through joy and through strife, But every step we take adds meaning to life.
- Sheeza , Karachi
 - Tue 29 Apr, 2025
 
This page has a diverse collection of poems on various topics, making it a good place for readers with broad interests in poetry.
- Kamran , Islamabad
 - Mon 20 May, 2024
 
Labor Day poetry often celebrates the hard work, struggles, and triumphs of the labor movement. Many poems focus on the dignity of work, the importance of worker solidarity, and the need for justice in the workplace
- Shahzaib , Karachi
 - Fri 28 Apr, 2023