غزل کا ہر لفظ پُر آب ہے دیکھو
شاعر کتنا ہی بے تاب ہے دیکھو
کیا سوال جو تُم میرے ہو؟ بولے نہیں
کیا اُن کا اندازَ جواب ہے دیکھو
مجھے تیرے عشق کا مارا ہوا کہتے ہیں
بڑا حسین مِلا مجھے خطاب ہے دیکھو
آئو میرے گھر تو پتہ چلے حالات کا
چارو کونوں میں بیٹھا اصطراب ہے دیکھو
حیا کی چادر اُتاڑ کے جو ملا کرتا تھا
وہ شخص آج زیرِ نقاب ہے دیکھو
ختم ہوئی کہانی میری تری زبان سے
میری زندگی کا آخری باب ہے دیکھو
نہال مان لو بات میری اب ہی تم
ساگرِ عشق میں زندگی حباب ہے دیکھو